A timeless story of love
I am going to tell you A timeless story of love. This story started in the days of Islam before the Battle of Badr. This is a true story which is described in detail in this article in Urdu language.
A timeless story of love
محبت کی لازوال داستان
A timeless story of love
I read this A timeless story of love from History of Islam and posted it here on my website. It gives many lessons and guides a lot. It is A timeless story of love that is mentioned in various books on the history of Islam.
محبت کی لازوال داستان
یوں تو وہ اُس کے خالو کا گھر تھا مگر پھر بھی فطری حیا آڑے آ رہی تھی.اُس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اپنے خالو سے کہا میں اپنے لِیے آپکی بڑی بیٹی کا ھاتھ مانگنے آیا ھوں
خالو نے کہا : میں بیٹی کی اِجازت کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتا , اُسے بڑی حیرت ہوئ کہ عرب کے دستور میں عورت کی مرضی پوچھنا معیوب سمجھا جاتا تھا
گھر جا کر شفیق باپ نے کہا : تمھاری خالہ کے بیٹے نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے کیا تم اِس پر راضی ھو؟
بیٹی نے شرم و حیا سے سر جُھکا لیا
یہاں سے مُحبت کی ایک داستان شروع ھوتی ھے
وقت گزرتا گیا اللہ تعالی نے دونوں کو بیٹے اور بیٹی کی دولت سے نوازا . دونوں ایک مثالی جوڑی تھے جن پر شہر کے لوگ رشک کرتے تھے.
ایک دن جب شوہر سفر سے واپس آیا تو بیوی نے کہا : “میرے پاس تمہارے لِیے ایک عظیم خبر ھے”
میرے ابا جان نے نبی و رسول ہونے کا اعلان کیا ہے
یہ سُن کر شوہر سکتہ میں آ گیا اور بولا
” تو تم نے کیا کیا ؟
بیوی : میں اپنے ابوؐ کو جُھٹلا نہیں سکتی سارا عرب اُن کی شرافت کی گواہی دیتا ہے لوگ اُن کو صادق اور امین کہتے ہیں ، میں اکیلی نہیں میری ماں اور بہنیں بھی اِسلام قبول کر چُکی ھیں ، میرا چچازاد بھائی علی بن ابی طالب بھی اِسلام قبول کر چُکے ھیں ، تیرا چچازاد عثمان بن عفان بھی مُسلمان ھو چُکے ھیں ، تمہارے دوست ابوبکر بھی اِسلام قبول کر چُکے ھیں.
شوہر : مگر میں نہیں چاھتا کہ لوگ یہ کہیں کہ اپنی قوم کو چھوڑ دِیا ، اپنے آباؤ اجداد کو جُھٹلایا ، تیرے ابوؐ کو ملامت نہیں کرتا ھوں بس میں اپنی قوم سے دغا نہیں کرونگا.
شوہر نے اِسلام قبول نہیں کِیا یہاں تک کہ ہِجرت کا زمانہ آ گیا اور بیٹی اپنے شفیق باپ کے پاس آئی اور بولی : اے اللہ کے رسولﷺ کیا آپ مُجھے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رھنے کی اِجازت دینگے؟
رسولﷺ نے فرمایا : اپنے شوھر اور بچوں کے پاس ھی رھو
اسلام قبول کرنے کہ بعد اُس کے ساتھ شوہر کا رویہ کھچا کھچا سا رہنے لگا میاں بیوی کے درمیان اک انجانی سی دیوار کھڑی ہو گی تھی وقت گُزرتا گیا اور دونوں اپنے بچوں کے ساتھ مکہ میں ھی رھے یہاں تک کہ غزوہِ بدر کا واقعہ پیش آیا . شوہر دُشمن کی فوج کے ساتھ اپنے سُسر کے خلاف لڑنے کے لیے روانہ ھوا ، بیوی خوف زدہ تھی کہ اِسکا شوھر اِسکے اباؐ کے خلاف جنگ لڑے گا اِسلیے روتی ھوئی کہتی تھی : اے اللہ میں ایسے دِن سے ڈرتی ھوں کہ میرے بچے یتیم ھوں یا اپنے ابوؐ کو کھو دوں!
جنگ بدر ختم ھوئی تو داماد سُسر کی قید میں تھا ، خبر مکہ پہنچ گئی
بیوی نے اپنے باپ کی کامیابی پر سجدہِ شُکر ادا کیا اور کہا : میں اپنے شوھر کا فدیہ (دیت) بھیج دونگی
شوھر کا فدیہ دینے کیلئے اُس کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں تھی اِسلیے اپنی والدہ کا ھار اپنے گلے سے اُتارہ اور اپنے والد کی خدمت میں روانہ کِیا ، رسول خُدا جو قیدیوں کا فدیہ وصول کر کے اِنکو آزاد کر رھے تھے ، اچانک اپنی زوجہ کے ھار پر نظر پڑی تو پوچھا : یہ کِس کا فدیہ ھے؟
لوگوں نے کہا : یہ آپ کے داماد کا فدیہ ھے
یہ سُن کر رسولﷺ اللہ رو پڑے اور فرمایا : یہ تو خدیجہ کا ھار ھے ، پھر کھڑے ھوگئے اور فرمایا : اے لوگو یہ شخص بُرا داماد نہیں ، کیا میں اِسکو رِہا کر دوں؟ ، اگر تم اِجازت دیتے ھو تو میں اِس کا ھار بھی اِسکو واپس کر دوں؟
لوگوں نے کہا کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولﷺ آپ پر ہماری نسلیں قربان. آپ جو حکم دیں گے وہ ہی ہوگا
رسولﷺ نے اُسے ہار تھما دِیا اور فرمایا
بیوی سے کہو کہ ماں کے ھار کا خیال رکھے ، پھر اُس کو ایک طرف لے جا کر فرمایا “اللہ نے مُجھے کافر شوھر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کرنے کا حُکم دے دِیا ھے اِسلیے میری بیٹی کو میرے حوالے کر دو”
یہ سُن کر شوہر پر قیامت ٹوٹ پڑی رندھی ہوئ آواز میں بولا میں وعدہ کرتا ہوں جاتے ہی واپس بھجوا دونگا
دوسری طرف بیوی شوھر کے اِستقبال کے لئے گھر سے نِکل کر مکہ کے داخلی راستے پر راہ دیکھ رھی تھی
شوہر کو آتا دیکھ کر اُس کا دل باغ باغ ہو گیا مگر شوہر کے چہرے پر غم کے بادل دیکھ کر پوچھا خیریت تو ہے آپ رہائ سے خوش نہیں کیا ؟
شوہر : یہ رہائ میرے لیے قید سے بدتر ہے کیونکہ خالو جان نے فیصلہ بتایا ہے کہ کافر شوہر کے پاس مسلمان بیوی نہیں رہ سکتی اور میں تمہیں واپس بھجوانے کا وعدہ کر آیا ہوں بیوی : تو تم میرے ساتھ چلو اور اِسلام قبول کر لو ؟
شوہر : نہیں
چنانچہ اُس نے حسبِ وعدہ جاتے ہی بیوی کو مدینہ اپنے سسرال پہنچا دیا جہاں چھ سال بیت گے اس دوران کئی رشتے آئے مگر اُس نے قبول نہ کِیے اور اِسی اُمید سے اِنتظار کرنے لگی کہ شاید شوھر اِسلام قبول کر کے آئے گا.
چھ سال بعد شوہر ایک قافلے کے ساتھ مکہ سے شام کے سفر پر روانہ ھوا ، سفر کے دوران راستے میں صحابہ کی ایک جماعت نے اِنکو گرفتار کِیا اور ساتھ مدینہ لے گئے
جب بیوی کو خبر پہنچی تو فورا دوڑی چلی آئیں اور بولیں
” ڈرنے کی ضرورت نہیں ، تم مدینے کے والئ کی پناہ میں ہو. خالہ زاد کو خوش آمدید علی اور امامہ کے باپ کو خوش آمدید
بیٹی نے باپ سے سفارش کی : اے اللہ کے رسولﷺ یہ میرا خالہ زاد ھے اور میرے بچوں کا باپ ھے میں اِنکو پناہ دیتی ھوں
رسولﷺ نے قبول کر لِیا اور فرمایا : اے لوگو یہ بُرا شخص نہیں اِس نے مُجھ سے جو بات کی سچ بولا اور جو وعدہ کِیا وہ نبھایا اگر تم چاھتے ھو کہ اِسکو اِس کا مال واپس کر کے اِسکو چھوڑ دِیا جائے اور یہ اپنے شہر چلا جائے یہ مُجھے پسند ھے ، اگر نہیں چاھتے ھو تو یہ تمہارا حق ھے اور تمہاری مرضی ھے میں تمہیں ملامت نہیں کرونگا
لوگوں نے کہا : ھم اِس کا مال واپس کر کے اِس کو جانے دینا چاھتے ہیں.
اپنا مال لے کر وہ مکہ روانہ ھو گیا جب مکہ پہنچا تو کہا : اے لوگو ، یہ لو اپنے اپنے مال ، کیا کسی کا کوئی مال میرے ذِمے ھے؟
لوگوں نے کہا : نہیں
تو وہ بولا : میرے خالو نے ہمیشہ میرے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جبکہ میں نے اُن کی مخالفت کی اب تم سب گواہ رہو میں گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ھیں
اسکے بعد وہ مدینہ روانہ ھوا اور جب مدینہ پہنچے تو پھر فجر کا وقت تھا ، سیدھا نبیﷺ کے پاس گئے اور کہا :
کل آپﷺ نے مجھے پناہ دِی تھی اور آج میں کہنے آیا ھوں کہ “میں گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ اللہ کے رسولؐ ھیں”
رسولﷺ اللہ نے اُسے اپنے سینہ سے لگا لیا اور وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو پڑا
نبی کریم ﷺ نے اُس کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا : آؤ میرے ساتھ..
بیٹی کے دروازے پر لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور فرمایا : یہ تمہارا خالہ زاد واپس آیا ھے اسلام قبول کر چکا ہے تم سے رجوع کی اِجازت مانگ رھا ھے کیا تمہیں قبول ھے؟
بیٹی کا چہرہ سُرخ ھوا اور مُسکرا دیں
عجیب بات یہ ھے کہ اِس واقعے کے صرف ایک سال بعد بیوی کا اِنتقال ہو گیا جِس پر شوہر بچوں کی طرح رونے لگے حتی کہ بعد میں بھی لوگوں کے سامنے رو پڑتے اور رسولﷺ اِن کے سر پر ھاتھ پھیر کر تسلی دیتے تھے.
جواب میں وہ کہتے : اے اللہ کے رسولﷺ ، اللہ کی قسم میں اب دُنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا
اور ایک سال کے بعد ھی اِنتقال کر گئے
میاں بیوی کی محبت کی اس لازوال سچی داستان میں شوہر کا نام ابو العاص الربیع اور بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا تھیں
In this A timeless story of love of husband and wife, the name of the husband was Abu Al-Aas al-Rabi and the wife was Sayeda Zainab, the eldest daughter of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him). A timeless story of love gives us many lessons that we should follow.
Faithfulness and patience are found in a timeless story of love.
For more quotes and stories please visit my website and my other pages like, my facebook page, my instagram page and my pinterest.